یہ درست ہے کہ کسی کو حقارت کی نگاہ سے مت دیکھو۔ بٹ صاحب کی سوسائٹی بدلی۔ ان کے دوستوں میں چند شراب پینے والے شامل ہوگئے۔ انہوں نے بٹ صاحب کو شراب نوشی پر لگادیا اور اس قدر شراب پیتے ہیں کہ بے حساب۔ پھر مدہوش ہوکرگرپڑتے ہیں
ہمارا ایک ایک اچھا یا برا لفظ لکھا جارہا ہے۔ جو ہم سوچتے ہیںیا جو کرتے ہیں اس کا سارا ریکارڈ اللہ کے پاس محفوظ ہے جو کسی کے ساتھ ذرا برابر بھی زیادتی کرتا ہے اس کا حساب دینا پڑے گا اور وہ حساب اس دنیا میں بھی ہوسکتا ہے اور اگلی دنیا میں تو یقینا حساب ہوگا۔ میرے ایک جاننے والے ہیں ان کو بٹ صاحب کہتے ہیں باڈی بلڈنگ کا انتہا درجے کا شوق ہے اوپر سے جوانی کا زور ہے۔ عمر 25/26 سال ہوگی۔ جب باڈی بلڈنگ کا شوق عروج پر تھا اس وقت ان کی عمر 21/22 سال تھی۔ کلب میں سب سے زیادہ ”وزن لگانے“ کا ریکارڈ ان کا ہے۔ جوانی پھڑکتی تھی۔ خون ابلتا تھا‘ باڈی بلڈنگ کی ٹریننگ میںیہ بات شامل ہے کہ اپنے جذبات پر قابو رکھنا ہے‘ برداشت کا مادہ پیدا کرنا لازمی ہے۔ بٹ صاحب جہاں سے گزرتے سب واہ واہ کرتے تھے۔ لوگ ان کی باڈی کو دیکھنے کیلئے آتے تھے۔ کچھ عرصہ تک اپنے استاد کی نصیحت پر بٹ صاحب نے عمل کیا مگر بعد میں ان میں قوت برداشت ختم ہونا شروع ہوگئی اور بات بات پر لڑنے کیلئے تیار ہوجاتے تھے۔ ایک دفعہ ویگن میں سفر کررہے تھے۔ فرنٹ سیٹ ان کیلئے مخصوص تھی۔ ان کے ساتھ ایک شخص آکر بیٹھ گیا شکل سے لگتا تھا کہ کوئی نشہ وغیرہ کرتا ہے۔
بٹ صاحب کہتے ہیں کہ مجھے اس کی شکل دیکھ کر بلاوجہ غصہ آگیا اور میں خواہ مخواہ سیٹ پر چوڑا ہوکر بیٹھا تاکہ اس کو جگہ کم ملے۔ اس نے کوئی احتجاج نہ کیا۔ جب ویگن چلی تو اس شخص نے سگریٹ سلگانی چاہی مگر بٹ صاحب نے منع کردیا۔ وہ شخص خاموش ہوگیا‘ سفر لمبا تھا۔ اس شخص سے برداشت نہ ہوا اور اس نے دوبارہ سگریٹ نکالی تاکہ پی سکے۔ اس بات پر بٹ صاحب کو غصہ آگیا اور انہوں نے ویگن میں بیٹھے اس شخص کو گال پر زور دار تھپڑ مارا اور بڑی آواز پیدا ہوئی۔ سب سواریوں نے محسوس کیا کہ اس شخص کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے اور بٹ صاحب نے کوئی شرمندگی محسوس نہ کی اور نہ ہی بعد میں معذرت کی۔ جب سفر ختم ہوا تو وہ شخص ویگن سے اترا اس نے بٹ صاحب کو روک کر کہا کہ آپ نے مجھے ناحق تھپڑ مارا ہے اس کا حساب خدا خود لے گا اور تم بھی اسی عذاب میں مبتلا ہوگے جس میں میں ہوں۔ بٹ صاحب کو مزید غصہ آگیا اور اس شخص سے پوچھا کہ کس عذاب میں مبتلا ہو۔ اس نے کہا کہ نشہ کرتا ہوں۔ بٹ صاحب نے بڑی نفرت اور حقارت سے کہا کہ جائو ‘ جائو ‘ اپنا کام کرو۔
یہ درست ہے کہ کسی کو حقارت کی نگاہ سے مت دیکھو۔ بٹ صاحب کی سوسائٹی بدلی۔ ان کے دوستوں میں چند شراب پینے والے شامل ہوگئے۔ انہوں نے بٹ صاحب کو شراب نوشی پر لگادیا اور اس قدر شراب پیتے ہیں کہ بے حساب۔ پھر مدہوش ہوکرگرپڑتے ہیں۔ اگر شراب نہ ملے تو جسم ٹوٹتا ہے۔ عجیب بے چینی شروع ہوجاتی ہے اور اکثر بٹ صاحب کہتے ہیں کہ مجھے یہ نشہ کی بیماری ناحق تھپڑ مارنے کی وجہ سے لگی ہے۔ کاش وہ شخص مجھے ملے اور میں اس سے معافی مانگوں۔
بلی کو مارنے کا انجام
سرائے عالمگیر کا ایک واقعہ ہے ایک شخص محمد فاضل نامی انگلستان گیا ہوا تھا اس کا سرائے عالمگیر میں گھر تھا اور باہر ملک میں اچھی کمائی کرتا تھا۔ یہاں اس نے یہ گھر بنایا تھا۔ محمدفاضل میں نخوت بھی کسی حد تک موجود تھی۔ دن خوشی خوشی گزررہے تھے۔ محمدفاضل یہاں کچھ دن چھٹی پر واپس آیا۔ پہلی بیوی سے اولاد نہ تھی۔ دوسری بیوی میں سے ایک ہی بیٹی تھی۔
ایک دن گھر کے صحن میں دودھ پڑا تھا۔ کہیں سے ایک بلی آگئی اس نے دودھ میں منہ ڈال دیا۔ کچھ پیا تھا کہ محمدفاضل کی نظر پڑ گئی۔ وہ بلی کے پیچھے بھاگا۔ بلی ڈرتے ہوئے بھاگی اور گھر کے کچن کی چمنی میں گھس گئی۔ فاضل نے جلدی جلدی چمنی بند کردی اور یوں یہ بلی اس چمنی میں قید ہوگئی۔ فاضل نے چمنی نہ کھولی اور بلی اس میں قید رہی۔ تقریباً! چار یا پانچ دن گزرگئے۔ کسی نے ایک دن چمنی کھول دی۔ بلی کئی دن کی بھوکی اور پیاسی تھی۔ چمنی سے نڈھال حالت میں نکلی۔ چھت پر خشک روٹی کا ایک ٹکڑا پڑا تھا۔ سخت بھوک کی حالت میں اس نے وہ ٹکڑا کھایا اور پانی پی لیا۔ خشک روٹی اور ٹکڑا کھا کر بلی تڑپنے لگی۔ بچوں نے محمدفاضل کو بتایا کہ بلی تو تڑپ رہی ہے۔ اس نے بچوں سے کہا کہ اس کو ماردو۔ بچوں نے بلی کو مار دیا۔ کچھ دن بعد فاضل کی انگلستان واپسی تھی۔ اس سے قبل ہی فاضل پر فالج کا اٹیک ہوا اور اس کا آدھا دھڑ مفلوج ہوگیا اور فاضل مکمل طور پر بچوںکا محتاج ہوکر رہ گیا۔ نہ خود کھانا کھاسکتا تھا نہ چل سکتا تھا بلکہ خود حاجت سے فراغت حاصل نہ کرسکتا تھا۔ مجبور اور بے کس بیوی سے لڑتا اور دل کی بھڑاس نکالتا۔ ایک زبان ساتھ تھی اس پر بھی فالج کا اٹیک ہوا اور زبان بھی بند ہوگئی۔ اب صرف اشاروں سے کچھ بات سمجھا سکتا تھا۔ اسی اثناءمیں اس کی اکلوتی جوان بیٹی فوت ہوگئی اور اب صرف فاضل تھا اور اس کی بیوی۔ فاضل زیادہ دن زندہ نہ رہ سکا اور اسی فالج کی حالت میں فوت ہوگیا۔ گویا کہ فاضل کی نسل ہی ختم ہوگئی۔ بیوی یہ گھر چھوڑ کر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے گائوں چلی گئی۔ فاضل کی ساری دولت اس کے عزیزوں نے قبضہ میں لے لی اور بیوی کو بھی کچھ نہ مل سکا۔ وہ بیوی جو خاوند کی کمائی پر ناز کرتی تھی اب گائوں میں کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزار رہی ہے۔ (ابوحذیفہ راولپنڈی)
چغلی کا انجام
ضلع جہلم کے ایک علاقے کا آدمی شیخ عاشق حسین تھا جس کی عادت تھی کہ ادھر اُدھر چغلی بہت لگاتا تھا اور لوگوں کے اندر پھوٹ ڈلوانا اور ان کو لڑانا اس کا مشغلہ تھا اگر وہ کسی کو مصیبت میں پھنسا دیتا تو اس کو اس میں عجیب لطف آتا۔ ان کے گھر کے سامنے یتیم بہن بھائی رہتے تھے۔ ان کی والدہ بھی فوت ہوچکی تھیں۔ ایک بھائی باہر ملک میں کام کرتا تھا اور گھر کا گزارا چل رہا تھا۔ عاشق کو پتہ نہیں کیا سوجھی اس نے بہن بھائیوں سے کہا کہ تم تو بجلی چوری کرتے ہو۔ تمہارا بل تو بہت تھوڑا آتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی واپڈا میں کسی جاننے والے کے ذریعے جھو ٹی گواہی دے آیا اور شکایت کردی کہ یہ گھر والے بجلی چور ہیں۔ واپڈا والے گھر پہنچ گئے اور ان کو 25ہزار روپے جرمانہ کردیا۔ یتیم لڑکیوں نے بہت کہا کہ ہم چوری نہیں کرتے مگر انہوں نے ایک نہ سنی۔ عاشق بھی ان کے ساتھ تھا۔ لڑکی نے تنگ آکر عاشق کو بددعا دی کہ تجھے اللہ اس ظلم کا بدلہ دے۔ اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ عاشق کے پائوں کی انگلیوں میں ایک پھوڑا نمودار ہوا جو علاج کروانے کے باوجود بڑھتا ہی چلا گیا۔ آخر کار ڈاکٹر نے تجویز کیا کہ پائوں کاٹنا پڑے گا ورنہ اس کے بڑھ جانے کا خطرہ ہے۔ لہٰذا پائوں کاٹ دیا گیا۔ زخم مندمل ہوئے کچھ ہی دن ہوئے تھے کہ دوبارہ پنڈلی میں وہی مسئلہ شروع ہوگیا اب دوبارہ علاج شروع ہوا مگر فائدہ ندارد۔ آخر ڈاکٹر کی ہدایت پر گھٹنے تک ٹانگ کاٹنی پڑی۔ اس پر بھی افاقہ نہ ہوا تو تیسرے آپریشن پر اس کی ساری ٹانگ کولہے تک کاٹ دی گئی۔ اس کے گھر والے اس کو گلی میں کرسی پر بٹھا دیتے جہاں اس پر مکھیاں بھنبھنا رہی ہوتیں اور یہ یہاں بیٹھ کر روتا رہتا اور یونہی روتے روتے وہ ایک دن گلی میں ہی مرگیا۔ (ابن وفا قادری)
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں